”اُف یہ نرسری کلاس“
آج حسب معمول جیسے ھی میں نے اپنی کلاس ”کچی شریف“ میں قدم رنجہ فرمایا تو کچی کے جیالوں کی تعداد خلاف معمول 90 کے ہندسے کو کراس کر رہی تھی،جن میں دو تہاٸی اکثریت اُن مجاھدین کی تھی جو زندگی کی صرف دو یا تین بہاریں دیکھ چکے تھے،اور جوتی اور شلوار کی قیود سے آزاد یہ حریت پسند اپنی بڑی بہن یا بھاٸ کے ساتھ بطور پروٹو کول آفیسر تشریف لاٸے تھے
،بہر حال جیسے ھی میں اندر داخل ھوا تو کمرے کے کسی گوشے سے ”کلاس سٹینڈ“کا ایک نعرہ مستانہ بلند ھوا اور پندرہ، بیس بچے اٹھ کھڑے ھوٸے باقی تمام رمُوز و دنیا سے آزاد اپنی خانہ جنگی میں مصروف رھے،چنانچہ اپنے وجود کی موجودگی کا احساس دلانے کیلیے میں نے ”اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ“ کی باآواز بلند صدا لگاٸ جس کا جواب دو چند نے دے کر بھرم رکھ لیا
تو جناب جیسے ہی میں کُرسی پر براجمان ہوا ،کلاس روم کمرہٕ عدالت میں تبدیل ھو گیا ،30،35 مدعیان نے بیک وقت اپنا اپنا استغاثہ داٸر کر دیا ،کسی نے اپنی ”بودن تراش “گم ھونے کی شکایت کی تو کسی نے حتک عزت کا دعوی داٸر کیا، کسی نے گالیوں کی بوچھاڑ سے اپنا چھلنی سینہ دکھایا تو کسی نے اپنے مسات کے ہاتھوں زلف کشی کا مقدمہ پیش کیا،کسی نے کچی پینسل کے سِکے ”پوڑنے“ کی شکایت کی تو کسی نے کاپی کے پھٹے ورک کو بطور ثبوت پیش کیا،کچھ نے دور بیٹھے اپنے ملیر شلیر کی طرف سے نقالی کرنے کا دکھڑا سنایا تو کسی نے ھوم ورک پر ”لِم شریف“یعنی بلغم گرانے کے اندوہناک واقعے سے آگاہ کیا،کوٸی اپنے جیب خرچ کی محرومی کا رونا رو رھا تھا تو کوٸی مدعا علیہ کی طرف سے (چھٹی کے بعد راستے میں مار کی) ملنے والی دھمکی سے مطلع کر رھا تھا
چنانچہ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ھوٸے تمام متاثرین اور مدعا علیہان کو طلب کیا گیا اور وقت کی قلت کے پیشِ نظر تمام ملزمان سے اجتماعی طور پر نمٹنے کا فیصلہ کر لیا،چنانچہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 7/51 کے تحت تمام مدعیان و مدعا علیہان کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا اور سوٹی بنوانے کےلیے تیز رفتار گھڑسوار روانہ کر دیے اس دوران ایک دوسرے کو خون بہا معاف کرنےاور آپس میں صلح صفاٸی کا موقع بھی دیا گیا،چنانچہ جیسے ہی کلاس روم میں چھمک نما سوٹی کا ظہور ھوا تو کچھ اس طرح کی صورت حال تھی
بقول شاعر٠٠٠٠
ایک ہی صف میں کھڑے ھوگۓ محمود و ریاض٠٠٠٠
نا کوٸی ملزم رھا اور نا کوٸی بندہ ناراض٠٠٠
ایک منٹ کے اندر بھاٸی چارے کی فضا قاٸم ھوگٸ اور میں نے بھی عام معافی کا اعلان کرتے ھوٸے تعلیمی عمل شروع کرنے کا اعلان کر دیا،مگر یہ کیا٠٠٠٠ ابھی سکول لگے چالیس منٹ بھی نہیں ھوٸے تھے کہ ناشتے والے انڈوں نے ستانا شروع کر دیا اور وہ خشک سالی شروع ہوگٸ کہ جیسے سبھی نےکل سے لنگری روزہ رکھا ھوا ھے، اور مثانہ کی کمزوری کے عارضہ میں مبتلا مریض بھی وارد ھونے لگے
تاریخ گواہ ھے کہ اگر کسی نے واش روم کی چھٹی مانگ لی اور اس کو دے دی گٸی تو پھر انگلی کھڑی کرنے والے ایمپاٸروں کی آمد کا ایک نا تھمنے والا سلسلہ شروع ھو جاتا ہے جو کہ بریک تک جاری رہتا ھے
کچھ شدت پسند ایسے بھی متھے چڑھ جاتے ہیں جن کو اگر چھٹی نا دی جاٸے تو انتقامی کارواٸی کرتے ھوٸے وہیں موقع پر پتلون گیلی کر تے ھوٸے واپس لوٹ جاتے ھیں،
بہرحال پھر بھی آج کل پراٸمری اساتذہ کےلیے mea کی آمد سےقبل تعداد کا بڑھنا نیک شگون ہوتا ھے،
چنانچہ 92 بچوں کی نفری لیے داد و تحسین وصول کرنے کے جزبے سے سرشار جناب ہیڈ ماسٹر کی دربار میں حاضر ہوا اور دست بستہ عرض کی کہ٠٠٠٠٠٠ جناب آٸیں اور تشریف لاٸیں اور دیکھیں ہم معیار تعلیم ، فروغ علم اور طلبہ کی عدد افزودگی کے لیے کیسے کوشاں ہیں
تو جناب رٸیسِ مدرسہ نے اس لشکرِ جرار کو دیکھ کر وہ الفاظ کہے جو تاریخ کا حصہ بن گٸے،فرمایا” او کاکے ! یہ جو دو، تین سال کے بچے سمیٹ لاٸے ھو یہ در اصل چار دن کی چاندنی ھے ،یہ تو کپاس چناٸی کا سیزن ھے اور ماٸیں ایسے چھوٹے دو تین سالہ بچے سکول بھجوا دیتی ھیں تاکہ اساتزہ بچوں کو بہلاتے رھیں اور ھم یکسو ھو کر کپاس کی چناٸی کر سکیں،“
تم دو ماہ بعد دیکھنا پھر اندھیری رات ھو گی “ سو راجہ پورس کی طرح اپنا لشکر لیے واپس کلاس روم آ دھمکا ٠٠٠کیونکہ بات تو سچ تھی مگر بات تھی رسواٸی کی٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔